![]() |
Surah Fatiha |
سورہ فاتحہ کی فضیلت
ابو سعید بن المعلٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے مجھ کو آواز دی نماز میں مشغولیت کے سبب میں نے جواب نہ دیا اور نماز سے فارغ ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ! یا رسول اللہ ﷺ میں نماز پڑھ رہا تھا اس لیے جواب نہ دے سکا، آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم نے خدا یہ حکم نہیں سنا، جب تمہیں اللہ اور اللہ کا رسول بلائے تو اسے جواب دو اور اسکی اطاعت کرو یعنی تمھیں نماز توڑ کر جواب دینا چاہیے تھا، یہ حضور کی خصوصیت ہے، پہر آپ نے فرمایا کیا میں تیرے مسجد سے نکلنے سے پہلے تجھے ایک ایسی سورت نہ بتلاؤں جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے، اس کے بعد آپ نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور باتوں میں مشغول ھوگئے ۔ میں نے جب مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے مجھے ایک بڑی سورت سکھانے کا وعدہ فرمایا تھا، آپ نے ارشاد فرمایا وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، اس میں سات آیتیں ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہ قرآن ہے جو مجھے دیا گیا ہے، ان جملوں سے آپ کا ارشارہ قرآن کی اس آیت کی جانب تھا ۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعََا مِّنَ الْمَثَانِیْ ۔
ترجمہ:- ہم نے آپ کو سات آیات دی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں ۔
وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ 0
ترجمہ:- اور قرآن عظیم عطا کیا ہے ۔
عبداللہ بن عباس رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ انھوں نے اُوپر سے دروازۃ کھلنے کی آواز سُنی، انھوں نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا یہ اسمان کا جو دروازہ کھولا گیا ہے جو آج سے پہلے نہ کھولا گیا تھا، پہر اس دروازے سے ایک فرشتہ نکلا، جبرائیل علیہ السلام نے کھا یہ فرشتہ آج ہی زمین کی جانب اُترا ہے، اس سے قبل کبھی نہ اُترا تھا، پہر وہ فرشتہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا اور کہا کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کو وہ ایسے نور عطا کئے گئے ہیں، جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے ہیں ۔ یعنی سورۃ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتیں ، ان میں سے جو کچھ بھی آپ پڑھیں گے وہ آپ کو عطا ھوگا ـــــــــ
چونکہ ان دونوں حصوں میں دُعائیں ہیں تو آپ کی وہ دُعائیں قبول ہونگی ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ کو معراج میں تو نور عطا ہوئے، ایک نماز، ایک سورہ فاتحہ اور تیسرے سورہ سورہ بقرہ کی آخری آیتیں ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا تم نماز میں پڑھتے ہو، ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ فاتحہ پڑھی نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ایسی کوئی سُورت نہ تو رات میں نازل کی گئی ، نہ انجیل میں ، نہ زبور میں ، اور نہ قرآن میں ، اس سورت میں سات آیتیں ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں ، اور یہی سورت قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا ہوا ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صحابہ کی ایک جماعت سفر میں گئی، راہ میں ایک یہود قبیلے پر گذر ہوا۔ انھوں نے وھاں قیام کیا، اور ان سے کہا ہم مسافر ہیں تم ہماری مہمانداری کرو، انھوں نے اس سے انکار کر دیا، کچھ دیر بعد سردار قبیلہ کے سانپ نے ڈس لیا، یہودیوں نے ہر قسم کا علاج کیا اور جھاڑ پہونک کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہ سوچ کر ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پاس پہنچے کہ شاید ان میں کوئی جھاڑ جانتا ہو، جب ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو ان میں سے ایک شخص نے اقرار کیا میں جھاڑ جانتا ہوں ، لیکن تمھیں نہ جھاڑوں گا، اس لئے کہ تم نے ہماری مھمانداری نہیں کی۔ جب تک تم میرے لیے جھاڑ کا کوئی بدلہ معّین نہ کرو ، حتیٰ کہ ایک ریوڑ بکری پر فیصلہ ہوا، یہ صحابی ان کے ساتھ گئے اور اس سردار کو جھاڑنا شروع کیا سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر سانپ کی کاٹی ہوئی جگہ پر تھوکتے جاتے، تھوری ہی دیر میں وہ اچھا ہوگیا اور کھڑا ھوکر چل دیا ، ان صحابی نے ان یہودیوں سے بکریاں وصول کرلیں جب اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو ساتھیوں نے بکریاں تقسیم کرنی چاہیں ، چونکہ حضور ﷺ نے ھمیں جھاڑ پہونک سے منع فرمایا تھا، کہیہں ایسا نہ ھو کہ یہ مال حرام ہو اس اس وقت ہاتھ نہ لگاؤ جب تک ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حضر نہ ہو۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو نبی اکرم ﷺ سے تمام واعہ عرض کیا، آپ ﷺ نے فرمایا تمنے جو کچھ کیا ٹھیک کیا، اور یہ مال حلال ھے، اسے باھم تقسیم کرلو اور اس میں میرا حِصَہ لگاؤ ۔۔۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box
Emoji