Islamic Solution
Islamic Solution

 تقدیر الٰہی کیا ہے۔۔۔۔؟ 

س۔۔۔۔۔۔ میں عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہوں، بعض اوقات عیسائی دوستوں یا غیر مسلموں سے مذہبی نوعیت کی باتیں بہی ہوتی ہیں، دین اسلام میں جن چیزوں کا ماننا ضروری ہے ان میں تقدیر پر ایمان لانا بھی از حد ضروری ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں یہ ہی نہیں معلوم ہے کہ تقدیر کیا ہے ۔۔؟ میں دل سے مانتی ہوں کہ تقدیر کا مکمل طور پرنا معلوم ہونا ہی ہمارے لیے بھتر ہے، لیکن چند موٹی موٹی باتیں تو معلوم ہوں، ہمیں تو یہ کچھ معلوم ہے کہ تقدیر معلق ہوتی ہے اور تقدیر مبرم ہوتی ہے ۔ اب اگر کوئی شخص میرے ہاتھ پر مسلمان ہونا چاھیے اور میں اسے کہوں کہ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ھے تو وہ لازمََا پوچھے گا کہ آخر تقدیر ہے کیا۔۔؟ اور اس میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں ۔۔؟ میرا خیال ہے کہ کم از کم موٹی موٹی باتیں ضرور معلوم ہونی چاھیں، جیسے میں نے کچھ تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ کم از کم یہ چیزیں ہماری تقدیر میں روزِ اوّل سے لکھی ہیں، ان میں " پیدائش " یعنی جیسے جس ماں کے بطن سے پیدا ہونا ہے، " موت " جس شخص کی جب، جہاں اور جس طرح موت واقع ہونی ہے، اس کا ایک وقت معین ہے۔ "رزق" جس کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے، یا کسی  کو زیادہ دیتا ہے اور کسی نپا تُلا دیتا ہے ۔ چناچہ ادمی ذاتی سعی کرے یا کچھ نہ کرے، رزق ایک مقدار میں مقرر ہے، چونکہ دوران سفر بھی انسان رزق پاتا ہے، سویوں دِکھائی دیتا ہے کہ سفر بھی ھمارے مقدر کا حصہ ھے، لیکن بعض چیزیں مبہم ہیں، جیسے شادی، انسان کے دکھ سکھ، شھرت، بیماریاں، غرض اور بھت سی چیزوں کے بارے میں، میں تحقیق نہ تو کرسکی، اور نہ کرنا چاھتی ہوں، مگر علماء کرام سے گزارش ہے کہ چار چھ موٹی موٹی باتیں تو بتائیں کہ یہ چیزیں تقدیر کا حصہ ہیں، کیا آپ میری مدد کریں گے۔۔؟ بڑی ممنون رہوں گی، خاص کر مجھے یہ بھی بتائیے کہ "شادی" انسانی مقدر کا حصہ ہے۔۔؟ یعنی پہلے سے لکھا ہوا ہے کہ فلاں لڑکے، لڑکی کی آپس میں ہوگی، یا کچھ یوں ہے کہ کوشش کرکے کسی سے بھی کی جاسکتی ہے، میں نے اس طرح کی ایک حدیث پڑھی ہے ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کسی بیوہ سے شادی کی، تو ہمارے نبی جناب حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا کہ : " تم نے کسی کنواری سے شادی کیوں نہ کی کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے ۔ " اس حدیث سے اندازہ ہوا کہ گویا یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ آدمی کوشش کرے تو کسی سے بھی کرسکتا ھے، مگر شاید یعنی دوسری احادیث مبارکہ بھی ہوں، آپ میرے سوال کا مکمل جواب دیجیے، ممنون رہوں گی ۔

ج۔۔۔۔۔ تقدیر کا تعلق صرف انہی چار چیزوں سے نہیں جو آپ نے ذکر کی ہیں، بلکہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی اور اچھی بری چیز تقدیر الٰہی کے تابع ہے، چونکہ انسان کو یہ علم نہیں کہ فلاں چیز کے بارے میں علم الٰہی میں کیا مقدر ہے۔۔؟ اس لئے اس کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارادہ واختیار اور اپنے علم وفہم کے مطابق بھتر سے بھتر چیز کے حصول کی محنت وسعی کرے، مثلاََ رزق کو لیجیے! رزق مقدر ہے، اور مقدر سے زیادہ ایک دانہ بھی کسی کو نہیں مل سکتا، مگر چونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے حق میں کتنا رزق مقدر ہے۔۔؟ اس لئے وہ رزق حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سعی ومحنت کرتا ہے، لیکن ملتا اتنا ہی ہے جتنا مقدر میں لکھا ہے، ٹہیک یہی صورت شادی کے مسئلہ میں بھی پائی جاتی ھے، والدین اپنی اولاد کے لئے بھتر سے بھتر رشتہ کے خواھشمند ھوتے ہیں۔ اور اپنے علم واختیار کی حد تک اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہوتا وہی ہے جو مقدر میں ہے، آنحضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے حضرت جابر رضی اللی تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ: " تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی۔۔؟" اس کا یہی مطلب ہے تمہیں تو کنواری کا رشتہ ڈھونڈنا چاھیے تھا ۔۔۔۔

س۔۔۔۔۔۔ میں ذاتی اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہوں، مگر میں نے کئی بدنصیب لوگ بھی دیکھے ہیں ۔ پیدائش سے لے کر آخر تک بدنصیب، قرآن کریم میں ہے کہ اللہ کسی شخص کو اس کی قوت برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیتے، لیکن میں نے بعض لوگ دیکھے ہیں جو دکھوں اور مصائب سے اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ آخرکار وہ "خودکشی" کرلیتے ہیں، آخر ایسا کوں ھوتا ہے۔۔؟ جب قرآن کریم میں ہے کہ کسی کی برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیئے جاتے تو لوگ کیوں خودکشی کرلیتے ہیں۔۔؟ کیوں پاگل ہوجاتے ہیں۔۔؟ اور بعض جیتے بھی ہیں تو بدتر حالت میں جتنے ہیں ۔
اس سوال کا جواب قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیجیے کہ انسانی عقل کے جوابات سے تشفی نہین ہوتی، دنیا میں ایک سے ایک ارسطو موجود ہے، اور ہر ایک اپنی عقل سے جواب دیتا ہے، اور سب کے جوابات مختلف ہوتے ہیں، لہذٰا جواب قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ سے دیجیے، امید ہے جواب ضروری دیں کے، ممنون رہوں گی ۔

ج۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کا تعلق تو شرعی احکام سے ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی بندوں کو کسی ایسے حکم کا مکلّف نہیں بناتا جو ان کی ھمّت اور طاقت سے بڑہ کر ہو، جہاں تک مصائب وتکالیف کا تعلق ہے، اگرچہ یہ آیت شریفہ ان کے بارے میں نہیں، تاھم یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنی مصیبت نہیں ڈالتا جو اس کی برداشت سے زیادہ ہو، لیکن جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : " انسان دھڑدلا واقع ہوا ہے ۔" اس کو معمولی تکلیف بھی پہنچتی ہے تو واویلا کرنے لگتا ہے اور آسمان سر اٹھالیتا ہے، بزدل لوگ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں اس کی وجھ یہ نہیں ہوتی کہ ان کی مصیبت حد برداشت سے زیادہ ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے اس کو ناقابل برداشت سمجھ کر ہمت ہار دیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ذرا بھی صبر واستقلال سے کام لیتے تو اس تکلیف کو برداشت نہ کرسکے، لیکن بسا اوقات آدمی اپنی کم فہمی کی وجہ سے اپنی ہمت وقوت کام میں نہیں لاتا، کسی چیز کا آدمی کی برداشت سے زیادہ ہونا اور بات ہے، اور کسی چیز کے برداشت کرنے کے لئے ہمت وطاقت کو استعمال ہی نہ کرنا دوسری بات ہے، اور ان دونوں کے درمیان آسمان وزمین کا فرق ہے ۔ ایک ہے کسی چیز کا آدمی کی طاقت سے زیادہ ہونا، اور ایک ہے آدمی کا اس چیز کو اپنی طاقت سے زیادہ سمجھ لینا، اگر آپ ان دنوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ کا اشکال جاتا رھے گا ۔۔۔