کیا حدیث کی صحت کے لٸے دل کی گواہی کا اعتبار ہے ۔۔؟
س۔۔۔۔۔ حضرت ابی اسید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم مجھ سے مروی کوٸی حدیث سنو جس کو تمھارے دل مان لیں اور تمہارے شعور نرم پڑ جاٸیں اور تم یہ بات محسوس کرو کہ یہ بات تمہاری ذھنیت سے قریب تر ہے تو یقینًا تمہاری نسبت میری ذہنیت اس سے قریب تر ہوگی (یعنی وہ حدیث میری ہوسکتی ہے) اور اگر خود تمہارے دل اس حدیث کا انکار کریں اور وہ بات تمھاری ذھنیت اور شعور سے دور ہو تو سمجھو کہ تمھاری نسبت وہ بات میری ذھنیت سے دور ہوگی اور وہ میری حدیث نہ ہوگی۔“ یہ حدیث کس پاٸے کی ہے ۔۔؟ اور اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس کو حکم بنایا ہے ۔۔؟ کیونکہ ہر فرد تو مخاطب ہو نہیں سکتا، اور ہر ایک کی ذھنیت اور سطحِ علم ایک جیسی نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: ”جب تم کوٸی حدیث سنو تو اس کے بارے میں وہی گمان کرو جو زیادہ صحیح گمان ہو ۔ زیادہ مبارک اور زیادہ پاکیزہ ہو “ اس حدیث کی سند کیسی ہے ۔۔۔؟
ج۔۔۔۔۔ یہ حدیث شریف مسند احمد میں دو جگہ (ایک ہی سند سے) مروی ہے ( ج:٥ ص:٤٢٥، ج:٣ ص:٩٧)، مسند بزار (حدیث:١٨٧)، صحیح ابن حبان میں ہے، ھیشمی نے مجمع الزواٸد میں، امام ابن کثیر نے تفسیر میں، زبیدی شارح احیا نے اتحاف میں اور ابن عراق نے ”تنزیہ الشریعة المرفوعة“ میں قرطبی کے حوالے سے اس کو صحیح کہا ہے، علامہ ابن جوزی رحمت اللہ علیہ نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے اور عُقیلی نے اس پر جرح کی ہے، شوکانی ”الفوٸد المجموعة“ میں کھتے ہیں کہ میرا جی اس پر مطمٸن نہیں ۔۔
آپ کا یہ ارشاد صحیح ہے کہ ہر فرد اس کا مخاطب نھیں ہوسکتا، اس کے مخاطب یا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمین تھے، آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات طیبات سے خاص مناسبت رکھتے تھے، یا ان کے بعد محدثین حضرات ہیں جن کے مزاج میں الفاظ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچاننے کا ملکہ قویہ پیدا ہوگیا ہے، بہرحال عامة الناس اس کے مخاطب نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ دوسری حدیث میں فرمایا: ”استفت قلبک ولو افتاک المفتون۔“ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو ( چاھے مفتی تمھیں فتوے دے دیں ) یہ ارشاد ارباب قلوب صافیہ کے لٸے ہے، ان کے لٸے نھیں جن کے دل اندھے ہوں ۔۔۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box
Emoji