´ تخلقوا باخلاق اللہ ´ کا مطلب
س۔۔۔۔۔ ´ تخلقوا باخلاق اللہ ´ سلوک میں مطلوب ہے، اللہ تعالٰی کی صفات میں جبار، قہار، منتقم، متکبر اور اسی قسم کے اور بھی اسمإ ہیں، پہر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کی صفات میں شریک ہونا شرک ہے اور دوسری طرف اس کی صفات سے متصف ہونا درجات کی بلند کا معیار بھی ہے ۔
ج۔۔۔۔۔ اسمإ الٰہیہ دو قسم کے ہیں، ایک وہ ہیں کہ مخلوق کو بقدر پیمانہ ان سے کچھ ہلکا سا عکس نصیب ہوجاتا ہے، ان صفات کو بقدر امکان اپنے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے، ´ تخلقوا باخلاق اللہ ´ سے یہی مراد ہے، مثلًا رٶف، رحیم، غفور، ودود وغیرہ ۔ دوری قسم وہ اسمإ ہیں جن کے ساتھ ذات الٰہی متفرد ہے، وہاں ان اسمإ حسنٰی سے انفعال (اثر لینا) مطلوب ہے، مثلًا قہار کے مقابلے میں اپنی مقہوریت تامہ کا استحصار، عزیز کے مقابلے میں اپنی ذلت تامہ اور غنی کے مقابلے میں اپنے فقر کا رسوخ، یہاں ´ تخلقوا باخلاق اللہ ´ کا ظہور انفعال کامل کی شکل میں ھوگا ۔
کیا بغیر مشاہدہ کے یقین معتبر نہیں ۔۔۔؟
س۔۔۔۔۔ ” وَکَذٰلِکَ نُرِيَ اِبرَاھِیمَ مَلَکُوتَ ۔۔۔۔۔ اِلٰی ۔۔۔۔۔ مُوقِنِینَ۔۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ بغیر مشاہدے کے یقین معتبر نہیں، حضرت ابراھیم علیہ السلام اولواالعزم پیغمبروں میں سے ہیں ان پر صحیفے بھی نازل ہوٸے (صحف ابراھیم وموسٰی ) اور بہت سے عجاٸبات قدرت انھوں نے دیکھے، ہر وقت ان کا اللہ تعالی سے قلبی رابطہ تھا، ان کو ملکوت السموات والارض کی سیر بھی کراٸی گٸی، اس کے باوجود ان کا قلب مطمٸن نہیں ہوتا اور ” کَیفَ تُحیِ المُوتٰی “ کا سوال کرتے ہیں، تو پہر ایک عام سالک جو اللہ کے راستے پر چل رہا ہے اور اپنی لذات کی قربانی دے کر اپنی جان کھپا رہا ہے اور عالم قدس سے بشکل صوت وصورت اس پر کوٸی فیضان نہیں ہورہا پہر بھی اس کی طاعت میں کوٸی کمی نہیں آتی، ایسی صورت میں وہ زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کو ملکوت سے کچھ مشاھدہ کرادیا جاٸے تاکہ اس کی حوصلہ افزاٸی ہو اور استقامت نصیب ہو ۔ انبیإ تو ویسے بھی ہر وقت ملکوت کی سیر کرتے رہتے ہیں ۔
ج۔۔۔۔۔ یقین کے درجات مختلف ہیں، یقین کا ایک درجہ عین الیقین کا ہے جو آنکھ سے دیکھنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور ایک حق الیقین کا ہے جو تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے، اسی طرح عامہ مٶمنین، ابرار وصدیقین، انبیإ ومرسلین علیہم السلام کے درجات میں بھی تفاوت ہے، ایمان کا درجہ تو عامہ مٶمنین کو بھی حاصل ہے اور ابرار وصدیقین کو ان کے درجات کے مطابق یقین کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور حضرات انبیإ کرام علیہم السلام کے مراتب کے مطابق ان کو درجات یقین عطا کٸے جاتے ہیں، پس حضرت ابراھیم علیہ السلام کا سوال ” کَیفَ تُحیِ المُوتٰی “ اس درجہ یقین اور اطمینان جو بلا رٶیت ہو پہلے بھی حاصل تھا ۔ سالکین اور اولیإ اللہ کو بھی مشاھدات کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور بغیر مشاھدات کے بھی ان کو یقین واطمینان ” ایمان بالغیب “ کے طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن ان کے ایمان اور اطمینان کو انبیإ کرام علیہم السلام کے ایمان واطمینان سے کوٸی نسبت نہیں اور وہ ان کے اطمینان اور یقین کا تحمل بھی نہیں کرسکتے ورنہ ہوش وحواس کھو بیٹہیں ۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box
Emoji