![]() |
Problems of the Prophets on the Sentence of Hazrat Khidr |
Problems of the Prophets on the Sentence of Hazrat Khidr
حضرت خضر کے جملہ پر اشکال
س۔۔۔۔۔ فَاَرَدْنَا اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا ۔ خضر علیہ السلام نے بظاھر یہاں شرکیہ جملہ بولا کہ اللہ تعالٰی کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ بھی شامل کردیا حالانکہ بظاھر" فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا " زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔۔
ج۔۔۔۔۔۔ اس قصے میں تین واقعات ذکر کئے گئے ہیں : 1 : کشتی کا توڑنا ۔ 2: لڑکے کو قتل کرنا ۔ 3: دیوار بنانا ۔ ان تینوں کی تاویل بتاتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام نے "اَرَدْتُّ" اور"اَرَادَ رَبُّکَ" تین مختلف صیغے استعمال فرمائے ہیں ، اس کو تفنن عبارت بھی کھ سکتے ہیں اور ہر صیغے کا خاص نکتہ بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔۔۔
۔۔1 ۔۔۔۔۔۔ مسکینوں کی کشتی توڑ دینا خصوصََا جب کہ انھوں نے کرایہ بھی نہیں لیا تھا، اگر چہ اپنے انجام کے اعتبار سے ان کا نقصان تھا جس کا بظاھر کوئی بدل بھی نھیں ادا کیا گیا اور ظاھر نظر میں بھلائی کا بدلہ برائی تھا اور شر بلا بدل بلکہ بعد الاحسان تھا، اس لئے ادبََا مع اللہ اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا اور " اَرَدْتُّ" کہا۔۔۔۔۔
۔2۔۔۔۔۔۔ بچے کا قتل کرنا بھی بظاھر شر تھا ، مگر اللہ تعالٰی نے اس کا بدل والدین کو عطا فرمایا جو ان کے حق میں خیر تھا، پس یہاں دو پہلو جمع ھعگئے، ایک بظاھر شر، اس اپنی طرف منسوب کرنا تھا اور دوسرا خیر یعنی بدل کا عطا کئے جانا، اس کو حق تعالٰی شانہ کی طرف سے منسوب کرنا، اس لئے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا تاکہ شر کو اپنی طرف اور اس کے بدل کو حق تعالٰی کی طرف منسوب کیا جاسکے ۔۔۔
۔3۔۔۔۔۔ اور یتیموں کی دیوار کا بنا دینا خیر محض تھا، جس میں شر کا ظاھری پہلو بھی نہیں تھا، نیز ان یتیموں کا سن بلوغ کو پہنچنا ارادہ الٰہی کے تابع تھا، اس لئے یہاں خود بیچ میں سے نکل گئے اور اس کو حق تعالٰی شانہ کی طرف منسوب فرمایا۔۔ "فَاَرَادَ رَبُّکَ" اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے نمبر پر شرکیہ جملہ نہیں بولا بلکہ شرکت کا جملہ بولا تاکہ شر اور خیر کو از خود تقسیم کرکے بظاھر شر کو اپنی طرف اور اس کے بدل کو جو خیر تھا، حق تعالٰی کی طرف منسوب کریں ، واللہ اعلم ۔۔۔۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box
Emoji