Islamic solution top 10
Islamic solution top 10 

 

Islamic solution top 10 


قرآن میں درج دوسروں کے اقوال قرآن ہیں ؟


س۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے دوسروں کے اقوال بہی دہرائیں ہیں، جیسے عزیز مصر کا قول : " اِنَّ کَیْدَکُنَّ  عَظِیْمٌ۔" یا بلقیس کا قول :" اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا" کیا ان کا اقوال کی بہی وہی اہمیت اور حقیقت ہے جو کلام اللہ کی ہے ؟ بعض واعضین اس طرح بیان کرتے ہیں دیکھو اللہ تعالٰی رفماتے ہیں : " اِنَّ کَیْدَکُنَّ  عَظِیْمٌ۔" حالانکہ یہ غیر اللہ کا قول ہے، اللہ تعالٰی نے صرف اس کو نقل کیا ہے۔۔

ج۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰی نے جب ان اقوال کو نقل فرما دیا تو یہ اقوال بہی کلام الٰہی کا حصہ بن گئے اور ان کی تلاوت پر بہی ثواب موعود ملے گا ( یہ ناکارہ بطور لطیفہ کرتا ہے کہ قرآن کریم میں فرعون، ہامان، قارون اور ابلیس کے نام آتے ہیں اور ان کی تلاوت پر بھی پچاس، پچاس نیکیاں ملتی ہیں ) پہر قرآن کریم میں جو اقوال نقل فرمائے گئے ہیں ان میں سے بعض پر رد فرمایا ہے جیسے کفار کے بھت سے اقوال، اور بعض کو بلا تردید نقل فرمایا ہے، تو اقوال مردود تو ظاہر ہے کہ مردود ہیں، لیکن جن اقوال کو بلا نکیر نقل فرمایا ہے وہ ہمارے لئے حجت ہیں، پس عزیز مصر کا قول اور بلقیس کا قول اسی دوسری قسم میں شامل ہیں اور ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔

کلام الٰہی میں درج مخلوق کا کلام نفسی ہوگا ؟

س۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا " جب غیراللہ کے اقوال اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں نقل کئے ہیں تو وہ بھی کلام الٰہی کا حصہ بن گئے۔" اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اقوال کلام الٰہی کا حصہ بن گئے تب بھی یہ کلام نفسی تو نہ ہوئے کیونکہ کلام نفسی تو قدیم ہے اور یہ قول کسی زمانے میں کسی انسان سے ادا ہوئے، اس کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں دہرایا، تو یہ اقوال تو مخلوق ہوئے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن سارا غیر مخلوق ہے ۔


ج۔۔۔۔۔۔ مخلوق کے کلام کا کلام الٰہی میں آنا بظارہر محل اشکال ہے، لیکن اس پر نظر کی جائے کہ اللہ تعالٰی کے علم میں ماضی ومستقبل یکساں ہیں تو یہ اشکال نہیں رھتا، یعنی مخلوق پیدا ہوئی، اس سے کوئی کلام صادر ہوا، اللہ تعالٰی نے بعد از صدور اس کو نقل فرمایا تو واقعی اشکال ہوگا، لیکن مخلوق پیدا ہونے اور اس سے کلام صادر ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی کے علم میں تھا، اور اس علم قدیم کو کلام قدیم میں نقل فرما دیا ۔۔


"اَصْحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ " کی تشریح

س۔۔۔۔۔ "اصحابۃ کلھم عدول "، " اصحابی کالنجوم" کیا یہ احادیث کے اقوال ہیں ؟ لیکن حدیث تو مستند ہے کہ : " لوگ حوض کوثر پر آئیں گے، فرشتے انہیں روکیں گے، میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں ، جواب ملے گا تمہیں نہیں معلوم انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا ؟ " اس حدیث شریف سے تمام صحابہ کا عدول ہونا بظاہر ثابت نہیں ہوتا (یہ ایک اشکال ہے صرف )، اسی طرح یہ حدیث شریف کہ جس صحابی کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤگے۔ تو اگر کوئی کہے کہ میں تو عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی اقتداء کرتا ہوں اور معاملات میں انصاف نہ کرے اور حوالہ دے ان کے واقعات کا مثلََا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ جو کیا جب کے دونوں صفین میں حکم بنائے گئے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتداء جس سے ہدایت ملے وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عقیدے اور رسوخِ ایمان کی ہے جس کی مثال مشکل ہے، ان کے اعمال عادات واطوار کی اقتداء مراد نہیں ؟


ج۔۔۔۔۔ "اصحابی کالنجوم۔" کا مضمون صحیح ہے، مگر الفاظ حدیث کے نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے افعال دو قسم کے ہیں، بعض تو اتباع نصوص کی وجہ سے اور بعض بنا بر اجتھاد ۔ پہر اجتھادی امور بھی دو قسم کے ہیں ، ایک وہ جن پر کسی ایک فریق کا صواب یا خطا پر ہونا ظن غالب سے متعین نہیں ہوا، ایسے اجتھادی امور میں مجتھد کے لئے کسی ایک قول کا اختیار کرلینا صحیح ہے جو مجتھد کے نزدیک ترجیح رکھتا ہو، اور دوسری قسم وہ ہے کہ ایک فریق کا خطا پر ہونا ظن غالب سے ثابت ہوجائے، ایس اقوال وافعال میں مخطی کا اتباع نہیں کیا جائے گا، البتہ ان کو اپنے اجتھاد کی بنا پر معذور بلکہ ماجور قرار دیا جائے گا، اس لئے: " بایہم اقتدیتم اھتدیتم ۔" کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے گا کہ ان کا خطا پر ہونا غلبہ ظن سے ثابت نہ ہو، البتہ یوں کہا جائے گا کہ انہوں نے بھی اتباع ہدایت کا قصد کیا لہٰذا ان پر ملامت نہیں۔ جہاں تک " اصحابۃ کلھم عدول۔" کا تعلق ہے یہ بھی حدیث نہیں بلکہ اہل سنت کا قاعدہ مسلّمہ ہے اور ان اکابر کے " کلھم عدول" ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ معصوم تھے، جس ہدایت کو ھم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منسوب کرتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں : ایک یہ کہ وہ کبائر سے پرہیز کرتے تھے اور ان کے نفوس طیبہ میں اجتناب عن الکبائر کا بلکہ راسخ ہوچکا تھا، دوم یہ کہ اگر کسی سے بتقا ضائے بشریت احیانََا کسی کبیرہ کا شاذ ونادر کبھی صدور ہوا تو انھوں نے فورََا اس سے توبہ کرلی اور بہ برکت صحبت نبوی ﷺ ان کے نفوس اس گناھ کے رنگ سے رنگین نہیں ہوئے اور :" التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔" ارشاد نبوی ﷺ ہے اس لئے ان ارتکاب کبیرہ کے باوجود توبہ کی وجہ سے عادل رہے، فاسق نہیں ہوئے، حضرت نانوتوی رحمت اللہ علیہ اور دیگر اکابر نے اس پر طویل گفتگو فرمائی ہے میں نے خلاصہ لکھ دیا جو حل اشکال کے لئے انشاءاللہ کافی ہے ۔۔