اختلاف رائے کا حکم دوسرا ہے
س۔۔۔۔۔ مشہور عرب بزرگ جناب محمد بن عبد الوہاب رحمت اللہ علیہ کے بارے میں حضرات دیوبند کی اصل رائے کیا ہے ۔۔؟ اور کیا وہ حقیقت حال کا سامنا کرنے سے متذبذب رہے ۔۔۔؟
حضرت گنگوہی رحمت علیہ کی رائے اس کے بارے میں معتدل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ )
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمت اللہ علیہ نے اسے خارجی کہا ہے ۔
حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ نے الشہاب الثاقب میں بہت سخت الفاظ میں تذکرہ کیا ہے اور اسے گمراہ قرار دیا ہے ۔
ابھی حال میں ایک کتابچہ " انکار حیات النبی ۔ ایک پاکستانی فتنہ " میں ( جو حضرت شیخ الحدیث رحمت اللہ علیہ کے غالباََ نوا سے مولانا محمد شاھد صاحب نے ترتیب دیا ہے اور اسے حضرت رحمت اللہ علیہ کے ایماء پر لکھنا بتایا ہے ) اسی محمد بن عبد الوہاب کو شیخ الاسلام والمسلمین لکھا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کیا تھا ۔۔؟ حضرت گنگوئی رحمت اللہ علیہ کی نظر میں داعی توحید یا حضرت علامہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کی نظر میں خارجی یا حضرت شیخ الحدیث رحمت اللہ علیہ کی رائے کے مطابق شیخ الاسلام ۔
نیز یہ کہ اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوئی رحمت اللہ علیہ سے الگ رائے قائم کرنے کے بعد کیا حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ اور حضرت علامہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کو حضرت گنگوئی رحمت اللہ علیہ سے انتساب کا حق رہ جاتا ہے یا نہیں ۔۔؟ یا حضرت شیخ الحدیث رحمت اللہ علیہ ، حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ سے مختلف رائے اختیار کرکے ان سے ارادت مندی کا دعویٰ کرسکتے ہیں یا نہیں ۔۔؟ تسکین الصدور ، طبع سوم (مرتبہ مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر ) میں حضرات اخلاف دیوبند نے ایک اصول طے کیا ہے کہ بزرگان دیوبند کے خلاف رائے رکھنے والے کو ان سے انتساب کا حق نہیں اگرچہ اکابرین دیوبند ان کے استاد ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔ اس فتویٰ پر اورون کے علاوہ آنجناب کے دستخط بھی ثبت ہیں ۔۔
ج۔۔۔۔۔ کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنے کا مدار اس کے بارے میں معلوم ہونے والے حالات پر ہے ، جیسے حالات کسی کے سامنے آئے اس نے ویسی رائے قائم کرلی ، اس کی نظیر جرح وتعدیل میں حضرات محدثین کا اختلاف ہے ، اس اختلاف رائے میں آپ جیسا فہیم آدمی الجھ کر رہ جائے ، خود محل تعجب ہے ۔
اکابر دیوبند سے شرعی مسائل میں اختلاف کرنے والے کا حکم دوسرا ہے ، اور واقعات وحالات کی اطلاع کی بناء پر اختلاف رائے کا حکم دوسرا ہے ، دونوں کو یکساں سمجھنا صحیح نہیں ۔
س۔۔۔۔۔ وقت ضوئع کرنے کی معذرت مگر حضرت والا ! ہم علماء کے خدام ہیں ، اکابرین دیوبند کے نوکر ، انہیں اپنا " اسوہ" خیال کرتے ہیں ، لیکن " اسوہ " مجروح ہو تو ایسے ہی تلخ سوال واشکال پیدا ہوتے ہیں ، اس لئے تلخ نوائی کی بھی معذرت ۔
ج۔۔۔۔۔ "اسوہ " کے مجروح ہونے کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ، ویسے ذہن میں تلخی ہو تو ظاہر ہے کہ آدمی تلخ نوائی پر مجبور ومعذور ہی ھوگا ۔۔۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box
Emoji